فکر دل دارئ گلزار کروں یا نہ کروں
ذکر مرغان گرفتار کروں یا نہ کروں
قصۂ سازش اغیار کہوں یا نہ کہوں
شکوۂ یار طرحدار کروں یا نہ کروں
جانے کیا وضع ہے اب رسم وفا کی اے دل
وضع دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہل ہوس
مدح زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں
یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں
گویا اس سوچ میں ہے دل میں لہو بھر کے گلاب
دامن و جیب کو گلنار کروں یا نہ کروں
ہے فقط مرغ غزل خواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمئ گفتار کروں یا نہ کروں
غزل
فکر دل دارئ گلزار کروں یا نہ کروں
فیض احمد فیض