EN हिंदी
فیروزی تسبیح کا گھیرا ہاتھ میں جلوہ افگن تھا | شیح شیری
firozi tasbih ka ghera hath mein jalwa-afgan tha

غزل

فیروزی تسبیح کا گھیرا ہاتھ میں جلوہ افگن تھا

احمد جہانگیر

;

فیروزی تسبیح کا گھیرا ہاتھ میں جلوہ افگن تھا
نارنجی شمعوں سے حجرہ خیر کی شب میں روشن تھا

راہ رووں نے دشت سفر میں ہر امید سنواری تھی
رنج کی راہ پہ چلنے والوں کا ہر خواب مزین تھا

رات ہوئی ہے خیمہ تو ناقہ سے اتارا جائے گا
دیپ کہاں رکھا ہے جس میں کچھ زیتون کا روغن تھا

رنگوں کی یہ قاب الٹ دے تصویروں پر ماٹی لیپ
کھوج جو سونے کے سکوں کا اک گوشے میں برتن تھا

چین میں سنتے ہیں شاید اب آئینہ ایجاد ہوا
ورنہ اک تالاب ہی اپنی آرائش کا درپن تھا

ماتم کی آواز اٹھائی زنجیروں کے حلقوں نے
ہاتھ بندھے تھے گردن سے پر گریہ شام تا مدین تھا