نقش آنکھوں میں اتارا جائے گا
پھر سفر میں دن گزارہ جائے گا
پہلے داخل ہوگا شب کے شہر میں
پھر سویرے کو پکارا جائے گا
جب امیدیں ختم سب ہو جائیں گی
وقت پھر کیسے گزارہ جائے گا
ہار کرنوں کا بنا کر جھیل کے
آئنہ میں دن سنوارا جائے گا
دیکھ لے گر اک نظر سورج اسے
کہرہ یہ بے موت مارا جائے گا
تھام کر رکھ تنکا ورنہ ایک دن
ہاتھ سے یہ بھی سہارا جائے گا
جب بھٹک جائے گا صحرا میں بہت
تب سمندر کو پکارا جائے گا
بے بسی میں ڈوبی نظروں سے فلک
اب قفس سے بس نہارا جائے گا
غزل
نقش آنکھوں میں اتارا جائے گا
سیما شرما میرٹھی