کعبہ ہے کبھی تو کبھی بت خانہ بنا ہے
یہ دل بھی عجب چیز ہے کیا کیا نہ بنا ہے
جس روز سے دل آپ کا دیوانہ بنا ہے
ایک لفظ بھی نکلا ہے تو افسانہ بنا ہے
یہ آج کا دن حشر کا دن تو نہیں یا رب
اپنا تھا جو کل تک وہی بیگانہ بنا ہے
تنکوں کا تو بس نام ہے سچائی یہی ہے
اک جہد مسلسل ہے جو کاشانہ بنا ہے
تخریب کے پردے میں ہی تعمیر ہے ساقی
شیشہ کوئی پگھلا ہے تو پیمانہ بنا ہے
تکمیل وفا ہوش میں ممکن ہی نہیں تھا
دیوانہ سمجھ بوجھ کے دیوانہ بنا ہے
دنیا میں کوئی مول نہ تھا شوقؔ کا لیکن
قسمت ہے جو سنگ در جانانہ بنا ہے
غزل
کعبہ ہے کبھی تو کبھی بت خانہ بنا ہے
عبدالطیف شوق