فضائیں اس قدر بے کل رہی ہیں
یہ آنکھیں رات بھر جل تھل رہی ہیں
دبے پاؤں مری تنہائیوں میں
ہوائیں خواب بن کر چل رہی ہیں
سحر دم صحبت رفتہ کی یادیں
مرے پہلو میں آنکھیں مل رہی ہیں
ترا غم کاکلیں کھولے ہوئے ہے
مرے سینے میں شامیں ڈھل رہی ہیں
اندھیروں میں کمی کیا ہوگی لیکن
یہ شمعیں شام ہی سے جل رہی ہیں
ضیاؔ ان ساعتوں میں کھو گئے ہم
کھلی آنکھوں سے جو اوجھل رہی ہیں
غزل
فضائیں اس قدر بے کل رہی ہیں
ضیا جالندھری