فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہے
یہ شام ہے کہ کوئی فرش پائمال سا ہے
ترے دیار میں کیا تیز دھوپ تھی لیکن
گھنے درخت بھی کچھ کم نہ تھے خیال سا ہے
کچھ اتنے پاس سے ہو کر وہ روشنی گزری
کہ آج تک در و دیوار کو ملال سا ہے
کدھر کدھر سے ہواؤں کے سامنے آؤں
چراغ کیا ہے مرے واسطے وبال سا ہے
کہاں سے اٹھتے ہیں بادل کہاں برستے ہیں
ہمارے شہر کی آنکھوں میں اک سوال سا ہے
سفر سے لوٹ کے آئے تو دیکھتے ہیں فروغؔ
جہاں مکاں تھا وہاں راستوں کا جال سا ہے
غزل
فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہے
رئیس فروغ