فضا میں نغمۂ آواز پا ہے میرے لیے
کراں سے تا بہ کراں اک ندا ہے میرے لیے
میں اپنی ذات میں لوٹا تو پھر ملا نہ مجھے
وہ ایک شخص جو روتا رہا ہے میرے لیے
سبب ہے رنج کا کچھ خوئے اضطراب مری
کچھ اپنے آپ سے بھی وہ خفا ہے میرے لیے
فلک تمام ہے آغوش باب محرومی
شجر شجر یہاں دست دعا ہے میرے لیے
کسی فراق کی تمہید بن کے رہ جانا
ترے وصال کی تسکیں بھی کیا ہے میرے لیے

غزل
فضا میں نغمۂ آواز پا ہے میرے لیے
مغنی تبسم