EN हिंदी
فضا میں کرب کا احساس گھولتی ہوئی رات | شیح شیری
faza mein karb ka ehsas gholti hui raat

غزل

فضا میں کرب کا احساس گھولتی ہوئی رات

پی.پی سری واستو رند

;

فضا میں کرب کا احساس گھولتی ہوئی رات
ہوس کی کھڑکیاں دروازے کھولتی ہوئی رات

عجیب رشتے بناتی ہے توڑ دیتی ہے
نئی رتوں کے سفیروں سے بولتی ہوئی رات

یہ دھڑکنوں کے اندھیرے یہ زخم زخم چراغ
کواڑ خالی مکانوں کے کھولتی ہوئی رات

اتھاہ گہرا اندھیرا غضب کا سناٹا
فضا میں درد کا تیزاب گھولتی ہوئی رات

کدھر سے آتی ہے آوارہ خوشبوؤں کی طرح
برہنہ جسم کے سائے ٹٹولتی ہوئی رات

نہ رتجگوں کے ہیں چرچے نہ کوئی غم کا الاؤ
سنبھل کے آئے ذرا گھر میں ڈولتی ہوئی رات

کہاں سے لائیں گے صبر و سکون کے لمحے
کہ میرے گھر میں ہے کہرام تولتی ہوئی رات

ہمارے ساتھ ہے تنہائیوں کی بھیڑ میں رندؔ
کسی کے لمس کی خیرات رولتی ہوئی رات