EN हिंदी
فضا میں دائرے بکھرے ہوئے ہیں | شیح شیری
faza mein daere bikhre hue hain

غزل

فضا میں دائرے بکھرے ہوئے ہیں

وجد چغتائی

;

فضا میں دائرے بکھرے ہوئے ہیں
ہم اپنی ذات میں الجھے ہوئے ہیں

ہزار خواہشوں کے بت ہیں دل میں
مگر بت بھی کبھی سچے ہوئے ہیں

شناسائی محبت بے وفائی
یہ سب کوئی مرے دیکھے ہوئے ہیں

ہے ان کا ذکر اتنا محفلوں میں
ہم اپنی داستاں بھولے ہوئے ہیں

ہوئی ہے ثبت ان پر مہر عالم
وہی جو فیصلے دل سے ہوئے ہیں

یہ دل جب تک ذرا ٹھہرا ہوا ہے
اسی کے دم سے ہم ٹھہرے ہوئے ہیں

جلاؤ دل کہ ہر سایہ ہو روشن
اندھیرے چین سے بیٹھے ہوئے ہیں

جو آنسو وقت رخصت تھے امانت
وہ اب تک روح میں تیرے ہوئے ہیں

بہت لوگوں نے کی ہے درد مندی
مگر یہ زخم کب اچھے ہوئے ہیں

گزر جاتے نہ جانے کتنے طوفاں
یہ دو آنکھیں انہیں روکے ہوئے ہیں