فضا میں بکھرے ہوئے رنگ جھلملاتے کیا
وہی ہوا تھی چراغوں کو پھر جلاتے کیا
شکستہ جسم تھا سورج کا قہر جھیلے ہوئے
برستے ابر کے چھینٹے ہمیں جگاتے کیا
تمام دور کی لہریں تھیں خواب کی صورت
بجا تھی پیاس سرابوں میں ڈوب جاتے کیا
ہر ایک لمحہ تھا اپنے ہی عکس سے دھندلا
گزرتے وقت کو ہم آئنہ دکھاتے کیا
لبوں پہ جم گئی دیوار و در کی خاموشی
تمام شہر تھا ویراں صدا لگاتے کیا
یہاں بھی کس کو تھی امید پار اترنے کی
ندی جو راہ میں ملتی تو لوٹ آتے کیا
بھٹک رہے ہیں زمانے سے غم کے صحرا میں
اب اور اس کی صدا کا فریب کھاتے کیا
تمام عمر گزاری رواں دواں راشدؔ
تھے برگ خشک کہیں پر قدم جماتے کیا

غزل
فضا میں بکھرے ہوئے رنگ جھلملاتے کیا
ممتاز راشد