فضا خموش زمین دنگ آسماں چپ ہے
زمانہ چیخ رہا ہے مگر جہاں چپ ہے
ٹٹولتا ہوں در طاق اجنبی کی طرح
مرے مکاں کے اندھیروں میں شمع داں چپ ہے
اسی سے خطرہ افشائے راز ہے درپیش
وہ آدمی جو ہمارے ہی درمیاں چپ ہے
بہت سنبھل کے گزر زندگی کے لمحوں سے
نہ جانے گر پڑے کب ریت کا مکاں چپ ہے
نگاہ میں کوئی منزل نہ کوئی سمت سفر
ہوا خموش ہے کشتی کا بادباں چپ ہے
تماشہ دیکھ رہے ہیں ترے دیار کے لوگ
میں خود ہوں مہر بلب میری داستاں چپ ہے
یہ کیسا الٹا زمانہ ہے ان دنوں صائبؔ
کہ آسماں کے زمیں سر ہے آسماں چپ ہے

غزل
فضا خموش زمین دنگ آسماں چپ ہے
محمد صدیق صائب ٹونکی