فضا کا ذرہ ذرہ عشق کی تصویر تھا کل شب جہاں میں تھا
میں خود اپنی نظر میں صاحب توقیر تھا کل شب جہاں میں تھا
جسے دیکھا وہ دیوانہ تھا نقش دلنشیں کے حسن عادل کا
جسے سوچا فنا کے رنگ کی تفسیر تھا کل شب جہاں میں تھا
مرا دل میرے جس پہلو میں رقصاں تھا اسی پہلو میں جنت تھی
یہ منظر چشم وا کے خواب کی تعبیر تھا کل شب جہاں میں تھا
وہ کیا لو تھی کہ جس کی اک کرن میں سورجوں کی وسعتیں گم تھیں
مرا سارا جہاں تنویر ہی تنویر تھا کل شب جہاں میں تھا
عمارت جسم کی مسمار ہوتی جا رہی ہر نفس لیکن
دل ویراں کو زعم رفعت تعمیر تھا کل شب جہاں میں تھا
ہوا نے احترام محفل قدسی میں اپنائی روش گل کی
فدا اس خامشی پر جوہر تقریر تھا کل شب جہاں میں تھا
غزل
فضا کا ذرہ ذرہ عشق کی تصویر تھا کل شب جہاں میں تھا
خاطر غزنوی