فضا کا حبس چیرتی ہوئی ہوا اٹھے
سفر میں دھوپ ہے بہت کوئی گھٹا اٹھے
پھرائے جسم پر مرے وہ انگلیاں ایسے
کہ ساز روح میرا آج جھنجھنا اٹھے
جو اور کچھ نہیں تو جگنوؤں کو کر رقصاں
سیاہ شب ذرا ذرا سی جگمگا اٹھے
مری طرح تمام لوگ بے زباں تو نہیں
کسی طرف کسی جگہ سے مسئلہ اٹھے
مرا فتور خود صدائیں دے مجھے منزل
قدم کو چومنے مرے یہ راستہ اٹھے
نہ جانے صحبتوں میں اس کی کیسا ہے نشہ
کہ در سے ہر اک شخص جھومتا اٹھے
کرو تو زندگی میں ایسا کچھ کرو سوربھؔ
مری نظر میں تیرا یار مرتبہ اٹھے
غزل
فضا کا حبس چیرتی ہوئی ہوا اٹھے
سوربھ شیکھر