EN हिंदी
فضائے نم میں صداؤں کا شور ہو جائے | شیح شیری
faza-e-nam mein sadaon ka shor ho jae

غزل

فضائے نم میں صداؤں کا شور ہو جائے

شمیم قاسمی

;

فضائے نم میں صداؤں کا شور ہو جائے
وہ مسکرا دے ذرا سا تو بھور ہو جائے

کبھی جو اتروں میں رقص سخن کے صحرا میں
تو اپنا حال بھی مانند مور ہو جائے

وہ مے کدے سے بھی نکلے تو پاکباز رہے
میں اس کی آنکھوں سے پی لوں تو شور ہو جائے

نظر میں پھول ہو کاغذ پہ ایک صحرا ہو
تو یوں غزل کا کوئی اور چھور ہو جائے

جو فعل اصل کو میں نظم کرنے بیٹھوں تو
بدن سے لہر اٹھے پور پور ہو جائے

ہر ایک رات وہی ڈش ہو ذائقہ بھی وہی
تو پھر مزاج طرح دار بور ہو جائے

یہ شامیانہ سخن کا قرار جاں ٹھہرا
یہاں قیام کرے جو پٹور ہو جائے

مراقبہ میں کوئی آگے چھم سے اترائے
تو پھر فقیر کے دل میں بھی چور ہو جائے

مگر یہ دل کہ کسی اور کا نہیں رکھتا
دماغ کہتا ہے تو میری اور ہو جائے

وہ اک بدن کہ جو سر چشمۂ تصور ہو
تو پا برہنہ سفر میں بھی زور ہو جائے

جو سن لے قاسمیؔ تیری غزل تو پتھر بھی
مجال ہے کہ وہ اتنا کٹھور ہو جائے