فضائے ناامیدی میں امید افزا پیام آیا
میں بیٹھا گن رہا تھا حسرتیں ان کا سلام آیا
ہماری شام فرقت جیسے اک شام چراغاں تھی
جو آنسو آیا پلکوں پر بہ حسن اہتمام آیا
ادھوری کس طرح رہتی کہانی عشق کی ہمدم
ادھر دم توڑتا تھا میں ادھر ان کا پیام آیا
ادھر بھی روشنی پھیلی ادھر بھی روشنی پھیلی
وہ جب محفل میں آیا صورت ماہ تمام آیا
چھڑی جب بات حسن و عشق کی بزم محبت میں
کہیں پر تیرا نام آیا کہیں پر میرا نام آیا
جوانی کے زمانے کی بس اتنی سی کہانی ہے
جب ان کی یاد آئی ضبط کا جذبہ نہ کام آیا
گدائے مے کدہ بن کر گزاری زندگی جس نے
مقدر میں اسی کے رحمت ساقی کا جام آیا
بس اتنا یاد ہے منزل بمنزل ہم سفر تھے وہ
نہ جانے کب سحر آئی کہاں ہنگام شام آیا
مرا اعمال نامہ گھومتا تھا میری نظروں میں
جب اپنے سامنے اے چرخؔ وقت اختتام آیا
غزل
فضائے ناامیدی میں امید افزا پیام آیا
چرخ چنیوٹی