EN हिंदी
فضائے آدمیت کو سنورنے ہی نہیں دیتے | شیح شیری
faza-e-adamiyat ko sanwarne hi nahin dete

غزل

فضائے آدمیت کو سنورنے ہی نہیں دیتے

چرن سنگھ بشر

;

فضائے آدمیت کو سنورنے ہی نہیں دیتے
سیاست داں دلوں کے زخم بھرنے ہی نہیں دیتے

زمانہ وہ بھی تھا جب حادثے کا ڈر ستاتا تھا
مگر اب حادثے لوگوں کو ڈرنے ہی نہیں دیتے

کچھ ہم نے خواب ایسے پال رکھے ہیں کہ جو ہم کو
حقیقت کی زمیں پر پاؤں رکھنے ہی نہیں دیتے

یہ مانا عشق سے بنتی ہے جنت زندگی لیکن
مسائل زندگی سے عشق کرنے ہی نہیں دیتے

گزر گاہوں کے آگے منزلیں آواز دیتی ہیں
مگر ٹھہرے ہوئے لمحے گزرنے ہی نہیں دیتے

بشرؔ بے رحم ہیں یہ پربتوں جیسے اصول اپنے
کسی کے دل کی وادی میں اترنے ہی نہیں دیتے