فصل گل میں ہر گھڑی یہ ابر و باراں پھر کہاں
دیکھ لو خوش ہو کے یاراں یہ بہاراں پھر کہاں
ہے سعادت قمریو اس کے تصدق ہو چلو
ورنہ کوئی دن کو یہ سرو خراماں پھر کہاں
آج آتی ہے نظر مجھ دل کے شیشے میں پری
دیکھ لو لحظہ میں یہ صورت نمایاں پھر کہاں
میں چمن میں پی کے مے کو اس لیے کرتا ہوں سیر
کون جانے ساقیا یہ گل غداراں پھر کہاں
قول ہے حضرت یقیںؔ کا تب تو یوں کہتا ہے نینؔ
بھر کے دل رو لیجیے یہ چشم گریاں پھر کہاں
غزل
فصل گل میں ہر گھڑی یہ ابر و باراں پھر کہاں
نین سکھ