فصل گل کی ہے آبرو ہم سے
ہم سے ہے سیل رنگ و بو ہم سے
حسن فطرت کے رازدار ہیں ہم
پھول کرتے ہیں گفتگو ہم سے
فرش گل پر بوقت صبح نسیم
آ کے ملتی ہے با وضو ہم سے
ہم شہید غم و الم ہی سہی
زندگی تو ہے سرخ رو ہم سے
نام ساقی کا ہو گیا ورنہ
مے کدہ میں ہے ہا و ہو ہم سے
بزم رنداں میں اب بھی باقی ہے
وقعت بادہ و سبو ہم سے
ہم سے ہے دردؔ و داغؔ کی عظمت
ہم سے ہے نام آرزوؔ ہم سے
سیکھنا ہو تو سیکھ لے منشاؔ
کوئی انداز جستجو ہم سے

غزل
فصل گل کی ہے آبرو ہم سے
محمد منشاء الرحمن خاں منشاء