EN हिंदी
فصل گل کی ہے آبرو ہم سے | شیح شیری
fasl-e-gul ki hai aabru humse

غزل

فصل گل کی ہے آبرو ہم سے

محمد منشاء الرحمن خاں منشاء

;

فصل گل کی ہے آبرو ہم سے
ہم سے ہے سیل رنگ و بو ہم سے

حسن فطرت کے رازدار ہیں ہم
پھول کرتے ہیں گفتگو ہم سے

فرش گل پر بوقت صبح نسیم
آ کے ملتی ہے با وضو ہم سے

ہم شہید غم و الم ہی سہی
زندگی تو ہے سرخ رو ہم سے

نام ساقی کا ہو گیا ورنہ
مے کدہ میں ہے ہا و ہو ہم سے

بزم رنداں میں اب بھی باقی ہے
وقعت بادہ و سبو ہم سے

ہم سے ہے دردؔ و داغؔ کی عظمت
ہم سے ہے نام آرزوؔ ہم سے

سیکھنا ہو تو سیکھ لے منشاؔ
کوئی انداز جستجو ہم سے