EN हिंदी
فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے | شیح شیری
fasl-e-gul KHak hui jab to sada di tu ne

غزل

فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے

شہزاد احمد

;

فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے
اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے

تیری خوشبو سے مرے دل میں کھلے درد کے پھول
سو گئی تھی جو بلا پھر سے جگا دی تو نے

میری آنکھوں میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اس خرابے میں یہ کیا شمع جلا دی تو نے

زندگی بھر مجھے جلنے کے لیے چھوڑ دیا
سبز پتوں میں یہ کیا آگ لگا دی تو نے

کوئی صورت بھی رہائی کی نہیں رہنے دی
ایسی دیوار پہ دیوار بنا دی تو نے

میں ترے ہاتھ نہ چوموں تو یہ نا شکری ہے
دولت درد تمنا سے سوا دی تو نے

کبھی کہہ دوں تو زمانہ میرا دشمن ہو جائے
دل کو وہ بات بھی چپ رہ کے بتا دی تو نے

وہ ترے پاس سے چپ چاپ گزر کیسے گیا
دل بے تاب قیامت نہ اٹھا دی تو نے

اسے کہنے کے لیے لفظ کہاں سے آئے
داستان شب غم کیسے سنا دی تو نے

اس کو بھی اس کی نگاہوں میں بہت خار کیا
اپنی توقیر بھی مٹی میں ملا دی تو نے

کاش واپس تجھے گویائی نہ ملتی شہزادؔ
بول کر آج بہت بات بڑھا دی تو نے