فصیل جسم کی اونچائی سے اتر جائیں
تو اس خرابے سے ہم لوگ پھر کدھر جائیں
ہوا بتاتی ہے گزرے گا کارواں کوئی
کچھ اور دیر اسی راہ پر ٹھہر جائیں
تمام دن تو لہو چاٹتا رہا سورج
ہوئی ہے شام چلو اپنے اپنے گھر جائیں
کبھی تو کوئی لہو کے دئیے جلائے گا
چلو نشان قدم اپنا چھوڑ کر جائیں
ابھی صدا نہ دو کچھ دیر اور سورج کو
یہ جتنی سوکھی ہوئی ندیاں ہیں بھر جائیں
یہ شش جہت تو بس اک نقش پا کا وقفہ ہے
تمہیں بتاؤ کہاں آ کے ہم ٹھہر جائیں
ایازؔ ہم کو نہ اپنا سکی کبھی دنیا
وہی صدا ہے تعاقب میں ہم جدھر جائیں

غزل
فصیل جسم کی اونچائی سے اتر جائیں
غلام حسین ایاز