EN हिंदी
فصیل دل میں در کیا کہ رابطہ بنا رہے | شیح شیری
fasil-e-dil mein dar kiya ki rabta bana rahe

غزل

فصیل دل میں در کیا کہ رابطہ بنا رہے

ممتاز گورمانی

;

فصیل دل میں در کیا کہ رابطہ بنا رہے
اسے خدا کا گھر کیا کہ رابطہ بنا رہے

زمیں پہ اپنے جسم کی تھکن بچھا کے سو گیا
بھروسہ خاک پر کیا کہ رابطہ بنا رہے

سبھی گھروں میں آپ ہی مقیم تھا اسی لیے
مجھے بھی در بدر کیا کہ رابطہ بنا رہے

وہ دشمنوں کی صف میں تھا اسی لیے کلام بھی
کمان کھینچ کر کیا کہ رابطہ بنا رہے

اسے پسند آ گئیں پلک پلک پہ جھالریں
سو میں نے ان کو تر کیا کہ رابطہ بنا رہے

میں خود غرض میں مطلبی تبھی خدا سے پیار بھی
کسی کے نام پر کیا کہ رابطہ بنا رہے

یہ کوزہ گر کا شوق تھا تبھی تو میری خاک نے
تھا رقص چاک پر کیا کہ رابطہ بنا رہے

کبھی میں کربلا گیا کبھی مدینہ و نجف
کہاں کہاں سفر کیا کہ رابطہ بنا رہے