فسانۂ ستم کائنات کہتے ہیں
یہ اشک غم تو مرے دل کی بات کہتے ہیں
وہی نگاہ کہ جس سے جہاں لرزتا ہے
ہم اس نگاہ کو راز حیات کہتے ہیں
طلوع مہر مبیں تک نظر نہیں جاتی
جو بے خبر ہیں وہ دن کو بھی رات کہتے ہیں
گل و بہار کا انجام ہے جنہیں معلوم
چمن کو دام گہہ حادثات کہتے ہیں
ہم اہل عشق ہیں شاعرؔ ہمیں یہ ہوش کہاں
کسے عتاب کسے التفات کہتے ہیں
غزل
فسانۂ ستم کائنات کہتے ہیں
شاعر فتح پوری