EN हिंदी
فرزانہ ہوں اور نبض شناس دو جہاں ہوں | شیح شیری
farzana hun aur nabz-shanas-e-do-jahan hun

غزل

فرزانہ ہوں اور نبض شناس دو جہاں ہوں

ظہور الاسلام جاوید

;

فرزانہ ہوں اور نبض شناس دو جہاں ہوں
دیوانہ ہوں اور بے خبر سود و زیاں ہوں

حالانکہ میں ہر وقت وہیں ہوں وہ جہاں ہیں
وہ سوچتے رہتے ہیں میں کیا جانے کہاں ہوں

میری ہی طرف ہے نگراں وقت کی دیوی
ہر عہد میں ہر دور میں تقدیر جہاں ہوں

محتاج توجہ مری ہر نرگس مخمور
اے دوست جواں ہوں میں جواں ہوں میں جواں ہوں

مجھ ہی سے عبارت ہے یہ تنظیم گلستاں
میں خندۂ گل ہی نہیں کانٹوں کی زباں ہوں

قائم ہے مجھی سے مرے اسلاف کی عظمت
میں اپنے بزرگوں کی صداقت کا نشاں ہوں

نغموں نے مرے دھوم مچا دی ہے چمن میں
جاویدؔ میں اک طنز پئے نوحہ گراں ہوں