فرش زمیں پہ برگ خزانی کا رنگ ہے
دیوار و در پہ نقل مکانی کا رنگ ہے
آنکھوں میں تیرتے ہیں سفینے وداع کے
لہجے میں آب جو کی روانی کا رنگ ہے
افراط چشم و لب کی کہیں سیڑھیوں میں تھی
لیکن چھتوں پہ قحط و گرانی کا رنگ ہے
گالوں پہ اک لکیر سی سیلاب اشک سے
دیوار پر کہیں کہیں پانی کا رنگ ہے
سرخی کے ساتھ عام سا بے شرح واقعہ
تصویر میں عجیب معانی کا رنگ ہے
قاصد کے دونوں ہاتھ کھلے لب خموش ہیں
کچھ آنکھ میں پیام زبانی کا رنگ ہے
لوگوں نے شوق سبز میں پکنے نہ دی یہ فصل
ہر چند سرخ عہد جوانی کا رنگ ہے
غزل
فرش زمیں پہ برگ خزانی کا رنگ ہے
سلیم شاہد