فرق کچھ تو چاہیئے اغیار سے
سر الفت ہم چھپائیں یار سے
اپنی آنکھوں سے اگر تشبیہ دوں
اشک ٹپکے روزن دیوار سے
بات ان کی معتبر ہے سچ کہا
حال میرا پوچھئے اغیار سے
اس کی چوٹی میں نہیں موباف سرخ
اٹھے ہیں شعلے دہان مار سے
دھوپ میں بیٹھوں کہ خجلت سے عدو
بھاگ جائیں سایۂ دیوار سے
پاس سے تیرے اٹھاتی غیر کو
زور ہو سکتا جو چشم زار سے
چھوٹتی ہیں منہ پہ کیا مہتابیاں
وصل کے دن سایۂ دیوار سے
سو طرح کی فکر میں تسکیںؔ پڑے
دل لگا کر اس بت عیار سے
غزل
فرق کچھ تو چاہیئے اغیار سے
میر تسکینؔ دہلوی