EN हिंदी
فریاد ہے اب لب پر جب اشک فشانی تھی | شیح شیری
fariyaad hai ab lab par jab ashk-fishani thi

غزل

فریاد ہے اب لب پر جب اشک فشانی تھی

بہزاد لکھنوی

;

فریاد ہے اب لب پر جب اشک فشانی تھی
یہ اور کہانی ہے وہ اور کہانی تھی

اب دل میں رہا کیا ہے جز حسرت و ناکامی
وہ نیش کہاں باقی خود جس کی نشانی تھی

جب درد سا تھا دل میں اب درد ہی خود دل ہے
ہاں اب جو حقیقت ہے پہلے یہ کہانی تھی

پر آب سی رہتی تھیں پہلے یہ مری آنکھیں
ہاں ہاں اسی دریا میں اشکوں کی روانی تھی

اے چشم حقیقت میں دنیا کو یہ سمجھا دے
باقی بھی وہی نکلی جو چیز کہ فانی تھی

بلبل نے تو افسانہ اپنا ہی سنایا تھا
گلشن کی کہانی تو پھولوں کی زبانی تھی

یوں اشک بہائے تھے یوں کیں نہ تھیں فریادیں
اک بات چھپانی تھی اک بات بتانی تھی

سادہ نظر آتا ہے اب تو ورق دامن
اب تک مرے دامن پر آنکھوں کی نشانی تھی

بہزادؔ کا وہ عالم بھی خوب ہی عالم تھا
بہزادؔ کی نظروں میں ہر چیز جوانی تھی