فریاد جنوں اور ہے بلبل کی فغاں اور
صحرا کی زباں اور ہے گلشن کی زباں اور
کٹ جائے زباں تیری تو ہو گرم زباں اور ہے
اللہ نے دی ہے تجھے اے شمع زباں اور
جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے سینے میں ہمارے
یہ داغ نہاں اور ہے یہ سوز نہاں اور
ہو جائے سچ افلاس میں سنتا ہوں رہے گا
دو چار مہینے ابھی ماہ رمضاں اور
آغاز محبت میں یہ دل خون ہوا ہے
روئیں گے ابھی دیدۂ خوں نابہ فشاں اور
دنیا میں اب ایسا قدر انداز نہیں ہے
ہوتے ہی ہدف دل کے چڑھی ان کی کماں اور
جو پیتے ہیں پیتے نہیں وہ بھی رمضان میں
سنتا ہوں کوئی بند ہوئی مے کی دکاں اور
اچھا ہے رہیں جا کے لگ دونوں جہاں سے
عشاق کے رہنے کو بنے ایک جہاں اور
پینے کا مزا جب ہے کہ منہ خم سے لگا ہے
مجھ رند سے ساقی یہ کہے جائے کہ ہاں اور
نکلا ہے مرا نام کہ بے نام و نشاں ہوں
مجھ سا بھی نہ ہوگا کوئی بے نام و نشاں اور
سنتا ہوں مسلمانوں میں اب مانگ بہت ہے
ڈرتا ہوں مئے ناب نہ ہو جائے گراں اور
پہنچے در و دیوار کو نقصان تو کیا غم
رونے کے لیے لیں گے کرائے کا مکاں اور
تیز آتش سیال ہے پہلے سے زیادہ
اب آگ لگائے نہ ذرا پیر مغاں اور
دی ہم نے جگہ دل کو بھی آنکھوں کے برابر
آنکھوں میں سماتے نہیں وہ ہو کے جواں اور
مرنے کا ریاضؔ اپنے ذرا نام نہ لینا
جینا ابھی مر مر کے تجھے ہے مری جاں اور
غزل
فریاد جنوں اور ہے بلبل کی فغاں اور
ریاضؔ خیرآبادی