فریاد بھی میں کر نہ سکا بے خبری سے
دل کھینچ لیا اس نے کمند نظری سے
اس بت کو کیا رام نہ سوز جگری سے
نالے مرے بدنام ہوئے بے اثری سے
کب دل پہ اثر کرتا ہے ظالم کا تملق
ملتے ہیں کہیں زخم جگر بخیہ گری سے
ہے سایہ فگن تازہ نہال چمن حسن
نسبت مرے دل کو ہے عقیق شجری سے
اڑ جاتے تیرے ہوش مرے نغموں سے بلبل
کر شکر کہ مجبور ہوں بے بال و پری سے
ہر لطف سے خالی ہے فروغ دم پیری
روشن ہوا یہ نور چراغ سحری سے
دامن کی کلی باد صبا کھول سکے کب
ساتر نہیں ڈرتے ہیں کبھی پردہ دری سے
الفت کا شجر سرو قدوں کی ہے ہری شاخ
عشاق کو باور ہوا یہ بے ثمری سے
کہتے ہیں وہ سن کر خبر رحلت عشاق
جلدی گیا کہنا تھا ہمیں کچھ سفری سے
ہوں لاکھ خطر کوچۂ دلبر نہ چھٹے گا
اٹھ سکتی ہے ذلت بھی کہیں مرد جری سے
نفرت نہیں لازم تجھے ظالم عوض رحم
بیٹھا ہوں میں دل کھو کے تری حیلہ گری سے
عامل کریں اک بار اگر بند تو میکش
خالی کریں سو مرتبہ شیشہ کو پری سے
کر دیتے ہیں یوں ہرزہ درا کو کملا بند
لب زخم کے جس طرح ملیں بخیہ گری سے
اغیار ہوے کب مری ناکامی کا باعث
محرومیاں پیدا ہوئیں آشفتہ سری سے
کر غیر کو اپنا کہ مرادوں کا نشاں دے
بے کار وہ پیکاں ہے جدا ہو جو سری سے
اعمال حبیبؔ جگر افگار کی کشتی
ساحل پہ پہنچ جائے گی اشکوں کی تری سے
غزل
فریاد بھی میں کر نہ سکا بے خبری سے
حبیب موسوی