فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر
مانوں نہ حشر میں ترے منہ پر کہے بغیر
دیکھو یہ رنگ رخ کا شگوفہ کہ میرا عشق
ظاہر ہوا ہے کہنے سے بڑھ کر کہے بغیر
منہ دیکھتا ہی رہ گیا کہنے کو جب گیا
پلٹا میں حالت دل مضطر کہے بغیر
پکڑو مری زبان تو صورت سے ہوشیار
کھولے گی راز یہ سر محشر کہے بغیر
ہکلا کے آج میں نے کہا اس سے اپنا شوق
تسکین دل ہوئی نہ مکرر کہے بغیر
سننے کو تم کہو تو مرے دل کی ایک بات
برسوں سے پھر رہی ہے زباں پر کہے بغیر
کرتا ہے ہر سوال یہ حجت کی مشق وہ
کوئی جواب ہی نہیں کیوں کر کہے بغیر
معشوق ہی تو کتنا ہی بد تر ہوا اس کا جور
بنتی نہیں ہے بات ہی بہتر کہے بغیر
مانا کہ دل شکن تھیں سر بزم پھبتیاں
لیکن نہ رہ سکا کوئی مجھ پر کہے بغیر
میں یہ سمجھ گیا کہ وہ گھر میں نہیں ہے آج
درباں نے خود ہی کھول دیا دریا کہے بغیر
کیا کیا کہے ہیں شعر حسینوں کے وصف میں
کیا شوقؔ ہو گیا ہے سخنور کہے بغیر
غزل
فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر
شوق قدوائی