فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے
مگر اک جرم کی پاداش میں جنت سے ہم نکلے
غم دنیا و دیں ان کو نہ فکر نیک و بد ان کو
محبت کرنے والے بے نیاز بیش و کم نکلے
غرض کعبہ سے تھی جن کو نہ تھا مطلب کلیسا سے
حد دیر و حرم سے بھی وہ آگے دو قدم نکلے
سحر کی منزل روشن پہ جا پہنچے وہ دیوانے
شب تاریک میں جو نور کا لے کر علم نکلے
مہ و خورشید بن کر آسمانوں پر ہوئے روشن
دو آنسو وہ مری آنکھوں سے جو شام الم نکلے
سکوت شب میں ہم نے ایک رنگیں خواب دیکھا تھا
مسرت جاوداں ہوگی اگر تعبیر غم نکلے
نہ ملتی ہوں شراب زندگی کی تلخیاں جن میں
سنا ہے وہ ضیاؔ کے دل سے ایسے شعر کم نکلے
غزل
فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے
ضیا فتح آبادی