EN हिंदी
فریب شب کا گرفتار رہوں بچاؤ مجھے | شیح شیری
fareb shab ka giraftar rahun bachao mujhe

غزل

فریب شب کا گرفتار رہوں بچاؤ مجھے

ماہر عبدالحی

;

فریب شب کا گرفتار رہوں بچاؤ مجھے
جلا کے شمع کوئی راستہ دکھاؤ مجھے

زبان حال سے کہتی ہے یاد ماضی کی
تمہاری راہ کی دیوار ہوں گراؤ مجھے

کہاں ہوں دشت طلب میں مجھے پتا تو چلے
مرا بھی نام پکارو کوئی بلاؤ مجھے

میں نم زمین کا پودا ہوں سوکھ جاؤں گا
سلگتی دھوپ کے صحرا میں مت لگاؤ مجھے

کوئی متاع ہنر دست بے ہنر کے لئے
کہانیاں نہ کرامات کی سناؤ مجھے

بٹھا کے نیچے گھٹاتے ہو کیوں مجھے ہر بار
بھلے کو اپنے کبھی داہنے بٹھاؤ مجھے

مرے سلوک کی صورت بدل نہیں سکتی
ہزار ظلم و ستم کر کے آزماؤ مجھے

یہ بے رخی یہ تغافل کہاں تلک پیارے
تمہارے کام ہی آؤں گا مت گنواؤ مجھے

نگل نہ جائے کہیں مجھ کو دشت خاموشی
اکیلا چھوڑ کے جاؤ نہ اے صداؤ مجھے

مجھے بھی شوق ہے پڑھنے کا یہ کتاب غزل
کہیں سے مفت میں ہاتھ آئے تو بتاؤ مجھے