فریب رنگ نہ دے جلوۂ بہار مجھے
عزیز تر ہیں چمن میں گلوں سے خار مجھے
مری خطاؤں پہ یہ باز پرس مالک حشر
عطا ہوا تھا کبھی دل پہ اختیار مجھے
یہ ان کی یاد یہ طوفان رنگ و بو توبہ
ملی تو درد میں ڈوبی ہوئی بہار مجھے
اب اس مقام پہ منزل ہے درد پیہم کی
کہ ہر تڑپ میں ملی لذت قرار مجھے
چمن میں رہ کے یہ محرومیاں مقدر کی
کہ میں بہار کو دیکھا کروں بہار مجھے
خدا کبھی نہ دکھائے وہ روز بد قیصرؔ
کہ آئے جلوۂ باطل کا اعتبار مجھے
غزل
فریب رنگ نہ دے جلوۂ بہار مجھے
قیصر امراوتوی