فریب کھا کے بھی شرمندۂ سکوں نہ ہوئے
نہ کم ہوا کسی منزل پہ ولولہ دل کا
یہ سوچ کر تری محفل سے ہم چلے آئے
کہ ایک بار تو بڑھ جائے حوصلہ دل کا
پلٹ کے اب نہ کبھی لکھنؤ سے گزرے گا
نکل گیا ہے بہت دور قافلہ دل کا
حریف عشق کوئی ہو حریف غم تو نہیں
کسی سے ہو نہ سکے گا مقابلہ دل کا
کوئی کسی کا نہیں ہم زباں زمانے میں
کریں تو کس سے کریں جا کے اب گلہ دل کا
شکست کھانے کا یارا نہیں پہ کیا کیجے
اک اجنبی سے پڑا ہے مقابلہ دل کا
تمہاری نذر بھی لائے جو ہم تو کیا لائے
ذرا سنبھال کے رکھنا یہ آبلہ دل کا
غزل
فریب کھا کے بھی شرمندۂ سکوں نہ ہوئے (ردیف .. ا)
باقر مہدی