EN हिंदी
فریب غم ہی سہی دل نے آرزو کر لی | شیح شیری
fareb gham hi sahi dil ne aarzu kar li

غزل

فریب غم ہی سہی دل نے آرزو کر لی

انجم اعظمی

;

فریب غم ہی سہی دل نے آرزو کر لی
برا ہی کیا ہے اگر تیری جستجو کر لی

غلط ہے جذبۂ دل پر نہیں کوئی الزام
خوشی ملی نہ ہمیں جب تو غم کی خو کر لی

بٹھا کے سامنے تم کو بہار میں پی ہے
تمہارے رند نے توبہ بھی روبرو کر لی

وفا کے نام سے ڈرتا ہوں اے شہ خوباں
تم آئے بھی تو نظر جانب سبو کر لی

کہاں سے آئیں گے انداز بے پناہی کے
ابھی سے جیب تمنا اگر رفو کر لی

زمانہ دے نہ سکا فرصت جنوں انجمؔ
بہت ہوا تو گھڑی بھر کو ہا و ہو کر لی