فریب زار محبت نگر کھلا ہوا ہے
تمہارے خواب کا مجھ پہ اثر کھلا ہوا ہے
میں اڑ رہا ہوں فلک تا فلک خمار میں یوں
کہ مجھ پہ ایک جہان دگر کھلا ہوا ہے
عجیب سادہ دلی ہے مری طبیعت میں
چلا سفر پہ ہوں رخت سفر کھلا ہوا ہے
میں جانتا ہوں کہ کیا ہے یہ آگہی کا عذاب
جو حرف حرف مری ذات پر کھلا ہوا ہے
کہاں کھلی ہیں ابھی اس کی حیرتیں مجھ پر
جو اک جہان ورائے نظر کھلا ہوا ہے
اک انتظار میں قائم ہے اس چراغ کی لو
اک اہتمام میں کمرے کا در کھلا ہوا ہے
غزل
فریب زار محبت نگر کھلا ہوا ہے
عبدالرحمان واصف