EN हिंदी
فریب راہ محبت کا آسرا بھی نہیں | شیح شیری
fareb-e-rah-e-mohabbat ka aasra bhi nahin

غزل

فریب راہ محبت کا آسرا بھی نہیں

وحید الحسن ہاشمی

;

فریب راہ محبت کا آسرا بھی نہیں
میں جا رہا ہوں مگر کوئی راستا بھی نہیں

ہر ایک کہتا ہے راہ وفا ہے نا ہموار
مگر خلوص سے اک آدمی چلا بھی نہیں

کسی کے ایک اشارے پہ دو جہاں رقصاں
مرے لیے مری زنجیر کی صدا بھی نہیں

عجیب طرفگیٔ شوق ہے کہ سوئے عدم
گئی ہے خلق مگر کوئی نقش پا بھی نہیں

یہ ٹھیک ہے کہ وفا سے نہیں لگاؤ اسے
مگر ستم تو یہی ہے کہ بے وفا بھی نہیں

کوئی مقام ہو اک آسرا تو ہوتا ہے
وہ یوں بدل گئے جیسے مرا خدا بھی نہیں