فریب دے نہ کہیں عزم مستقل میرا
ہجوم یاس سے گھبرا نہ جائے دل میرا
یہ کس مقام پہ پہنچا دیا محبت نے
کہ میرے بس میں نہیں ہے خود آج دل میرا
مبارک عیش کا ماحول خوش نصیبوں کو
بہت ہے میرے لیے درد مستقل میرا
سن اے نگاہ محبت سے روٹھنے والے
ترے خیال میں گم ہے سکون دل میرا
مرے گناہوں کا انجام سوچنے والے
یہ دیکھ کہتا ہے کیا اشک منفعل میرا
دو چار تنکوں کی دنیا عجیب دنیا تھی
کہ مطمئن تھا ہر اک طرح جس میں دل میرا
امید لطف کسی اور سے ہو کیا حامدؔ
ہوا نہ جب کہ محبت میں میرا دل میرا

غزل
فریب دے نہ کہیں عزم مستقل میرا
حامد الہ آبادی