فقیروں پہ اپنے کرم اک ذرا کر
ترے در پہ بیٹھے ہیں دھونی رما کر
بہت دیر سے در پہ سادھو کھڑے ہیں
فقیروں پہ داتا دیا کر دیا کر
نہیں ہم کو خواہش کسی اور شے کی
ہمیں اپنے جوبن کا صدقہ عطا کر
سرورؔ ان کی نگری میں برسوں پھرے ہم
فقیرانہ بھیس اپنا اکثر بنا کر
غزل
فقیروں پہ اپنے کرم اک ذرا کر
سرور جہاں آبادی