فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا
پھر اس کے بعد سفر سب ستارہ وار کیا
بس اتنی دیر میں اعداد ہو گئے تبدیل
کہ جتنی دیر میں ہم نے انہیں شمار کیا
کبھی کبھی لگی ایسی زمین کی حالت
کہ جیسے اس کو زمانے نے سنگسار کیا
جہان کہنہ ازل سے تھا یوں تو گرد آلود
کچھ ہم نے خاک اڑا کر یہاں غبار کیا
بشر بگاڑے گا ماحول وہ جو اس کے لیے
نہ جانے کتنے زمانوں نے سازگار کیا
تمام وہم و گماں ہے تو ہم بھی دھوکہ ہیں
اسی خیال سے دنیا کو میں نے پیار کیا
نہ سانس لے سکا گہرائیوں میں جب وہ ملالؔ
تو اس کو اپنے جزیرے سے ہمکنار کیا
غزل
فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا
صغیر ملال