فقط شور دل پر آرزو تھا
نہ اپنے جسم میں ہم تھے نہ تو تھا
ہر اک کے پاؤں پر جھکتے کٹی عمر
نہ سمجھے ہم کہ کس قالب میں تو تھا
جہاں پہنچے اسی کا نور پایا
جدھر دیکھا وہی خورشید رو تھا
جگہ دامن میں اپنے کیوں نہ دیتے
کہ طفل اشک اپنا ہی لہو تھا
کہوں کیا دل کی میں نازک مزاجی
خدا بخشے نہایت تند خو تھا
میں کیفیت کہوں کیا بزم مے کی
کہ مینا ہاتھ میں آنکھوں میں تو تھا
غش آیا اس نے تولی تیغ جب جب
عجب ہلکا ہمارا بھی لہو تھا
بہت ڈھونڈا کہیں پایا نہ ہم نے
بتا دے یہ کہ کس گوشے میں تو تھا
بچا قاتل کا دامن للہ الحمد
بہت کھولا ہوا اپنا لہو تھا
عدو تھے ساقیا سب مے کدے میں
یہی اک آس تھی پلے پہ تو تھا
لباس کہنہ جب تھا اپنا صدچاک
تو پھر بے کار پیوند و رفو تھا
غضب میں آ کے تجھ کو توڑتا شیخ
نتیجہ بحث کا کیا اے سبو تھا
تری تصویر تھے ہم بھی کسی وقت
یہی نقشا ہمارا ہو بہو تھا
نظر میں ہیچ تھا کونین ساقی
لبالب جام تھا ہم تھے سبو تھا
سزا لغزش کی پاتے بزم میں ہم
خدا کو خیر کرنا تھا کہ تو تھا
ہم اپنے ہوش میں باقی تھے ہر طرح
مگر جب تو ہمارے روبرو تھا
تجھی سے منہ پھلا لیتے عجب کیا
صبا غنچوں کا بھی آخر نمو تھا
چلے ہم باغ سے اے شادؔ کس وقت
بہار آنے کو تھی گل کا نمو تھا
غزل
فقط شور دل پر آرزو تھا
شاد عظیم آبادی