EN हिंदी
فنا ہوا تو میں تار نفس میں لوٹ آیا | شیح شیری
fana hua to main tar-e-nafas mein lauT aaya

غزل

فنا ہوا تو میں تار نفس میں لوٹ آیا

ارشد جمال صارمؔ

;

فنا ہوا تو میں تار نفس میں لوٹ آیا
خوشا کہ عشق تری دسترس میں لوٹ آیا

نہ جانے اس نے کھلے آسماں میں کیا دیکھا
پرندہ پھر سے جہان قفس میں لوٹ آیا

کسی کے جبر میں کتنا تھا اختیار مجھے
برا کیا کہ جو میں اپنے بس میں لوٹ آیا

یہ حاشیے ترے گمراہ کر رہے تھے مجھے
کتاب زیست سو میں تیرے نص میں لوٹ آیا

وہ دل خراش تھا آئندہ سال کا منظر
میں الٹے پاؤں گزشتہ برس میں لوٹ آیا