فنا ہوا تو میں تار نفس میں لوٹ آیا
خوشا کہ عشق تری دسترس میں لوٹ آیا
نہ جانے اس نے کھلے آسماں میں کیا دیکھا
پرندہ پھر سے جہان قفس میں لوٹ آیا
کسی کے جبر میں کتنا تھا اختیار مجھے
برا کیا کہ جو میں اپنے بس میں لوٹ آیا
یہ حاشیے ترے گمراہ کر رہے تھے مجھے
کتاب زیست سو میں تیرے نص میں لوٹ آیا
وہ دل خراش تھا آئندہ سال کا منظر
میں الٹے پاؤں گزشتہ برس میں لوٹ آیا
غزل
فنا ہوا تو میں تار نفس میں لوٹ آیا
ارشد جمال صارمؔ