فلسفی کس لیے الزام فنا دیتا ہے
لفظ کن خود مری ہستی کا پتہ دیتا ہے
ہو گیا ترک مراسم کو زمانہ لیکن
آج تک دل تری نظروں کو دعا دیتا ہے
تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں سے دوا کے بدلے
چارہ گر آج نہ جانے مجھے کیا دیتا ہے
کچھ تو ہوتا ہے حسینوں کو بھی احساس جمال
اور کچھ عشق بھی مغرور بنا دیتا ہے
سوز الفت سے وہ کم مایۂ غم ہے محروم
آتش دل کو جو اشکوں سے بجھا دیتا ہے
پردہ داری بھی ہے اک مصلحت خاص جمال
شوق نظارہ کی قیمت کو بڑھا دیتا ہے
زندگی دے کے مصیبت میں ہمیں ڈال دیا
کوئی یوں بھی کہیں بے جرم سزا دیتا ہے
دار مل ہی گئی منصور کو واعظ ورنہ
کون دنیا میں محبت کا صلہ دیتا ہے
ہائے اس بیکس و مجبور کی قسمت عرشیؔ
شام سے پہلے ہی جو شمع جلا دیتا ہے
غزل
فلسفی کس لیے الزام فنا دیتا ہے
عرشی بھوپالی