فلک سے چاند ستاروں سے جام لینا ہے
مجھے سحر سے نئی ایک شام لینا ہے
کسے خبر کہ فرشتے غزل سمجھتے ہیں
خدا کے سامنے کافر کا نام لینا ہے
معاملہ ہے ترا بدترین دشمن سے
مرے عزیز محبت سے کام لینا ہے
مہکتی زلفوں سے خوشبو چمکتی آنکھ سے دھوپ
شبوں سے جام سحر کا سلام لینا ہے
تمہاری چال کی آہستگی کے لہجے میں
سخن سے دل کو مسلنے کا کام لینا ہے
نہیں میں میرؔ کے در پر کبھی نہیں جاتا
مجھے خدا سے غزل کا کلام لینا ہے
بڑے سلیقے سے نوٹوں میں اس کو تلوا کر
امیر شہر سے اب انتقام لینا ہے

غزل
فلک سے چاند ستاروں سے جام لینا ہے
بشیر بدر