فلک سے چاند چمن سے گلاب لے آئے
کہاں سے کوئی تمہارا جواب لے آئے
ہزار رنگ ہیں حسن و جمال کے لیکن
وہ رنگ اور ہے جس کو شباب لے آئے
عجیب طرفہ تماشا ہے زندگی میری
خوشی بھی آئے تو غم بے حساب لے آئے
ترے خمیر میں شامل ہے گمرہی ورنہ
فلک سے کتنے پیمبر کتاب لے آئے
ادھر وہ تشنہ لبی ہے کہ جاں بہ لب ہیں ہم
ادھر وہ دست کرم پر سراب لے آئے
اسی کی آج بھی رہتی ہیں منتظر آنکھیں
جو آ بھی جائے تو صد اضطراب لے آئے
یہ شعر گوئی ہے اخلاقؔ کوئی کھیل نہیں
کرے وہ مشق جو چھلنی میں آب لے آئے
غزل
فلک سے چاند چمن سے گلاب لے آئے
اخلاق بندوی