فلک پہ جتنے ہیں تارے شمار سے باہر
نکل نہ جائیں کسی دن مدار سے باہر
تری جدائی کا موسم بھی خوبصورت ہے
مجھے نکال رہا ہے خمار سے باہر
کسی بھی وقت یہ منظر بدلنے والا ہے
دکھائی دینے لگا ہے غبار سے باہر
اداس رت ہے ابھی تک مرے تعاقب میں
خزاں کے پھول کھلے ہیں بہار سے باہر
ترے کرم سے تو پتھر بھی بول پڑتے ہیں
نہیں ہے کچھ بھی وہاں اختیار سے باہر
مرے وجود کا گنبد ہے ٹوٹنے والا
نکلنے والا ہوں میں اس حصار سے باہر

غزل
فلک پہ جتنے ہیں تارے شمار سے باہر
محمد نوید مرزا