فلک پہ چاند نہیں کوئی ابر پارہ نہیں
یہ کیسی رات ہے جس میں کوئی ستارہ نہیں
یہ انکشاف ستاروں سے بھر گیا دامن
کسی نے اتنا کہا جب کہ وہ ہمارا نہیں
زمیں بھنور ہو جہاں آسماں سمندر ہو
وہاں سفر کسی ساحل کا استعارہ نہیں
میں مختلف ہوں زمانے سے اس لیے شاید
کسی خیال کی گردش مجھے گوارہ نہیں
خزاں کے موسم خاموش نے صدا دی ہے
جمال دوست نے پھر بھی مجھے پکارا نہیں
جو ریزہ ریزہ نہیں دل اسے نہیں کہتے
کہیں نہ آئینہ اس کو جو پارہ پارہ نہیں
میں زخم زخم سہی پھر بھی مسکرایا ہوں
ظفرؔ بہ نام ظفر ہار کے بھی ہارا نہیں
غزل
فلک پہ چاند نہیں کوئی ابر پارہ نہیں
احمد ظفر