فلک نے رنج تیر آہ سے میرے زبس کھینچا
لبوں تک دل سے شب نالے کو میں نے نیم رس کھینچا
مرے شوخ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھو
بہار حسن کو دی آب اس نے جب چرس کھینچا
رہا جوش بہار اس فصل گر یوں ہی تو بلبل نے
چمن میں دست گلچیں سے عجب رنج اس برس کھینچا
کہا یوں صاحب محمل نے سن کر سوز مجنوں کا
تکلف کیا جو نالہ بے اثر مثل جرس کھینچا
نزاکت رشتہ الفت کی دیکھو سانس دشمن کی
خبردار آرزوؔ ٹک گرم کر تار نفس کھینچا
غزل
فلک نے رنج تیر آہ سے میرے زبس کھینچا
خاں آرزو سراج الدین علی