فلک نژاد سہی سرنگوں زمیں پہ تھا میں
جبین خاک پہ تھی اور مری جبیں پہ تھا میں
گندھی پڑی تھی مری خاک خال و خد کے بغیر
ابھی ہمکتا ہوا چاک اولیں پہ تھا میں
یہ تب کی بات ہے جب کن نہیں کہا گیا تھا
کہیں کہیں پہ خدا تھا کہیں کہیں پہ تھا میں
نیا نیا میں نکالا ہوا تھا جنت سے
زمیں بنائی گئی جن دنوں یہیں پہ تھا میں
خدا کا حکم بجا بد گمانی اپنی جگہ
غلط نہ تھا مرا انکار اس یقیں پہ تھا میں
خدا کے جھگڑے میں آخر دماغ ہار گیا
کہ دل ثبات میں تھا اور نہیں نہیں پہ تھا میں
غزل
فلک نژاد سہی سرنگوں زمیں پہ تھا میں
انجم سلیمی