EN हिंदी
فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے | شیح شیری
falak ko kis ne ek parkar par rakkha hua hai

غزل

فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے

آصف شفیع

;

فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے
زمیں کو بھی اسی رفتار پر رکھا ہوا ہے

ابھی اک خواب میں نے جاگتے میں ایسے ہے دیکھا
مرا آنسو ترے رخسار پر رکھا ہوا ہے

شکست و فتح کی خاطر ہمیں لڑنا نہیں ہے
ہمارا فیصلہ سالار پر رکھا ہوا ہے

پلٹ کر آ ہی جائے گا کبھی بھولے سے شاید
سو میں نے اک دیا دیوار پر رکھا ہوا ہے