فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے
زمیں کو بھی اسی رفتار پر رکھا ہوا ہے
ابھی اک خواب میں نے جاگتے میں ایسے ہے دیکھا
مرا آنسو ترے رخسار پر رکھا ہوا ہے
شکست و فتح کی خاطر ہمیں لڑنا نہیں ہے
ہمارا فیصلہ سالار پر رکھا ہوا ہے
پلٹ کر آ ہی جائے گا کبھی بھولے سے شاید
سو میں نے اک دیا دیوار پر رکھا ہوا ہے
غزل
فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے
آصف شفیع