فلک ہے سرخ مگر آفتاب کالا ہے
اندھیرا ہے کہ ترے شہر میں اجالا ہے
چمن میں ان دنوں کردار دو ہی ملتے ہیں
کوئی ہے سانپ کوئی سانپ کا نوالہ ہے
شب سفر تو اسی آس پر بتانی ہے
اجل کے موڑ کے آگے بہت اجالا ہے
جہاں خلوص نے کھائی شکست دنیا سے
وہیں جنون نے اٹھ کر مجھے سنبھالا ہے
میں کھو گیا ہوں ترے خواب کے تعاقب میں
بس ایک جسم مرا آخری حوالہ ہے
غزل
فلک ہے سرخ مگر آفتاب کالا ہے
مینک اوستھی